Hindustan Kahan jaraha hai? Ye Kya hai?
*سپریم کورٹ کے دو فیصلے : سمت قبلہ کیا ہے؟*
*✍🏻تحریر:شیخ طریقت حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم*
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ)
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک شرماریٹائرڈ ہوگئے، مگر جاتے جاتے انہوں نے چند ایسے فیصلے سنائے جن کااثر بہت دیر تک باقی رہے گا۔دو مردوں یادو عورتوں کا آپس کاجنسی تعلق ہندوستان میں جرم تھا، اور اس کے متعلق ۱۵۸ سالہ پرانا قانون (دفعہ ۳۷۰) موجودتھا۔ جسے سپریم کورٹ نے یکایک ختم کر دیا اور ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے باہر نکال کر یہ اعلان کردیا کہ *ہم ایجادات، ترقیات اور علوم و فنون میں مغرب سے چاہے جتنا پیچھے رہیں ،بے حیائی اور ننگے پن میں اہل مغرب کے پیچھے رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کایہ فیصلہ صرف ایک فیصلہ نہیں ہے بلکہ مشرقی تہذیب کے خاتمے اورمغربی تہذیب کی طرف بڑھایا گیا مضبوط قدم ہے اور اس کے بڑے غلط اثرات پورے سماج پر پڑیں گے،* پرائیویسی، فرد کی آزادی، اور بنیادی حقوق کہنے کو بڑے خوبصورت الفاظ ہیں مگر ان کی بنیاد پر دیا جانے والا یہ فیصلہ ہندوستانی تہذیب اور مشرقی قدروں سے متصادم ہے،او ر آنے والے دنوں میں اس کے بد ترین نتائج سامنے آئیں گے،ابھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر چہ میگوئیاں جاری ہی تھیں کہ اچانک ایک دوسرافیصلہ صادر ہوا، جس میں شادی شد ہ مرد و عورت کو اجنبی عورت اور اجنبی مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی، اور (۱۵۷) سالہ پرانے قانون ( دفعہ ۴۹۷) کوختم کر دیاگیا۔ *بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ رضا مندی کے ساتھ کی جانے والی حرام کاری کی اجازت ہے، جب کہ ایسانہیں ہے،باہمی رضا مندی کے ساتھ کی جانے والی زنا کاری تو پہلے ہی سے جرم کے دائرے سے باہر ہے، مگر شادی شدہ عورت کے ساتھ اس کے شوہر کے علاوہ اگر کوئی دوسرامرد جسمانی تعلق قائم کرتا اور اس عورت کاشوہرشکایت کر دیتا تو زنا کار مرد مجرم قرار دیاجاتا ،لیکن اب سپریم کورٹ کافیصلہ یہ کہہ رہاہے کہ بیوی شوہر کی ملکیت نہیں ہے، اگروہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور سے بھی تعلق قائم کر لے تو اسے اس کی اجاز ت ہے،اسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی کے علاوہ دوسری شادی شدہ عورت یاغیرشادی شدہ عورتوں سے تعلق قائم کرسکتاہے۔لطیفہ یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کو ایک دوسرے کی اس طرح کی نا زیبا ( نا زیبا ہم جیسےدقیانوسیوں کی زبان میں ، ورنہ معزز جج حضرات تو اسے زیبا قراردے چکے ) حرکت پر اعتراض ہو تو کورٹ کایہ کہنا ہے کہ وہ طلاق کے ذریعے علاحدگی اختیار کرسکتے ہیں، دفعہ ۴۹۷ کے خاتمے نے فرد کی آزادی کے نام پر بیوی کو بے لگام اور شوہرکو ایک بیوی کے شوہر سے آگے بڑھا کر بین الاقوامی شوہر بنا دیا ہے،سماج اور معاشرے میں بے حیائی اور جنسی انارکی کے پھیلنے میں اس اقدام سے کتنی تیزی آئے گی اس کااندازہ تولگایا جاسکتاہے، ساتھ ہی ساتھ خاندانی نظام کیسی پھوٹ پھوٹ کاشکار ہوگا ،یہ بات بھی کم درد ناک نہیں ہے۔ابھی اس فیصلے پرچنددن ہی گزرے ہیں اورنتیجہ آنا شروع ہوگیا۔ تاملناڈو کی راجدھانی چنئی میں پشپ للتانامی خاتون نے خود کشی کر لی۔ اس انتہائی قدم سے پہلے اس نے جو تحریر لکھی اس میں اس بات کی وضاحت کی کہ ’’ اس کے شوہر کے کسی دوسری عورت سے تعلقات ہیں، جب شوہر کو روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے کہا کہ یہ غلط بات یا جرم نہیں ہے،سپریم کورٹ نے بھی اسے درست کہا ہے اور اب اسے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘اس بات سے مایوس ہو کر بیوی نے خود کشی کر لی۔* کہا جا سکتا ہے کہ یہ دفعہ ۴۹۷ کے خاتمے کا پہلا پھل ہے، او ر یاد رکھناچاہئے کہ خاردار درخت پر پھل بھی کڑوے ہی آتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے یہ دونوں فیصلے یہ بتانے کے لیے بہت کافی ہیں کہ ہم ہندوستانی جسم کے لحاظ سے آزاد صحیح مگر ذہن وفکرکے اعتبار سے اب بھی مغرب کی غلامی ہی کے ڈگر پر ہیں۔ افسوس کہ ہندوستان کے باشندوں نے ان دونوں فیصلوں کو شیر مادر کی طرح پی لیا اوراس کانتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوگا کہ
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
٭…٭…٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Collected from WhatsApp.
Comments
Post a Comment